مَنَم محوِ جمالِ اُو، نمی دانم کُجا رفتم
شُدَم غرقِ وصالِ اُو، نمی دانم کجا رفتممیں اسکے جمال میں محو ہوں اور نہیں معلوم کہاں جا رہا ہوں، بس اُسی کے وصال میں غرق ہوں اور نہیں جانتا کہاں جا رہا ہوں۔غلامِ روئے اُو بُودَم، اسیرِ بُوئے اُو بودمغبارِ کوئے اُو بودم، نمی دانم کجا رفتممیں اس کے چہرے کا غلام ہوں، اسکی خوشبو کا اسیر ہوں، اسکے کُوچے کا غبار ہوں، اور نہیں جانتا کہاں جا رہا ہوں۔بہ آں مہ آشنا گشتم، ز جان و دل فدا گشتمفنا گشتم فنا گشتم، نمی دانم کجا رفتماُس ماہ رُو کا آشنا ہو کر گھومتا ہوں، جان و دل فدا کیے ہوئے گھومتا ہوں، خود کو فنا کیے ہوئے گھومتا ہوں اور نہیں جانتا کہاں جا رہا ہوں۔شدم چوں مبتلائے اُو، نہادم سر بہ پائے اُوشدم محوِ لقائے او، نمی دانم کجا رفتممیں اس کے عشق میں ایسے مبتلا ہوں کہ اس کے پاؤں پر سر رکھے ہوں اور ہمہ وقت اسکے دیدار میںمحو اور نہیں جانتا کہاں جا رہا ہوں
(بو علی قلندر)