الہام کی رم جھم کہیں بخشش کی گھٹا ہے
یہ دل کا نگرہے کہ مدینے کی فضا ہے
سانسوں میں مہکتی ہیں مناجات کی کلیاں
کلیوں کے کٹوروں پہ ترا نام لکھا ہے
رگ رگ نے سمیٹی ہے ترے نام کی فریاد
جب جب بھی پریشان مجھے دنیا نے کیا ہے
اِک بار ترا نقشِ قدم چوم لیا تھا
اب تک یہ فلک شکر کے سجدے میں جھکا ہے
ہر سمت ترے لطف و عنایت کی بارش
ہر سو ترا دامانِ کرم پھیل گیا ہے
سورج کو اُبھرنے نہیں دیتا ترا حبشی
بے زر کو ابوذر تیری بخشش نے کیا ہے
اب اور بیاں کیا ہوکسی سے تیری مدحت
یہ کم تو نہیں ہے کہ تو محبوبِ خدا ہے
اے گنبدِ خضرا کے مکین میری مدد کر
یا پھر یہ بتا کون میرا تیرے سوا ہے
بخشش ترے ابرو کی طرف دیکھ رہی ہے
محسن ترے دربار میں چپ چاپ کھڑا ہے
No comments:
Post a Comment